Add parallel Print Page Options

سچا چرواہا اور اسکی بھیڑیں

10 یسوع نے کہا ، “میں تم سے سچ کہتا ہوں اگر کوئی آدمی بھیڑ خانہ میں داخل ہوگا وہ دروازہ کے ذریعے آئیگا لیکن وہ کسی اور طرف سے چڑھکر آئے تو وہ چور ہے جو بھیڑ چرانے آ تا ہے۔ لیکن جو دروا زہ سے داخل ہوگا وہ چرواہا ہے جو بھیڑوں کا نگہبان ہوگا۔ اور دربان اسکے لئے دروازہ کھول دیگا اور وہ چرواہا ہے اور بھیڑیں اپنے چر واہے کی آواز سنتی ہیں وہ اپنی بھیڑوں کو نام سے بلا کر لے جاتا ہے۔ جب وہ اپنی تمام بھیڑوں کو باہر نکال لیتا ہے تو وہ انکے آگے چلتا ہے اور بھیڑیں اسکے پیچھے چلتی ہیں کیوں کہ وہ اسکی آواز کو پہچانتی ہیں۔ اور بھیڑیں کسی غیر شخص کے پیچھے جسے وہ نہیں جانتیں نہیں جائیں گی۔ وہ اس غیر آدمی سے دور بھا گیں گی کیوں کہ وہ اسکی آواز کو نہیں پہچانتیں۔”

یسوع نے ان سے یہ قصّہ کہا۔لیکن لوگ سمجھ نہیں سکے کہ اس قصّے کا کیا مطلب ہے۔

یسوع ایک اچھا چرواہ

اس لئے یسوع نے ان سے دو بارہ کہا ، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں بھیڑوں کا در وازہ ہوں۔ اور جو کوئی مجھ سے پہلے آئے ہیں وہ چور اور ڈاکو تھے اور بھیڑوں نے انکی آواز نہ سنی۔” میں دروازہ ہوں اور جو کوئی میرے ذریعے داخل ہو گا وہی نجات پائیگا اور اندر باہر جا نے کا مستحق ہوگا اور جو کچھ وہ چاہے گا پا ئے گا۔ 10 چور تو چرانے اور مارنے تباہ کر نے کے لئے آتا ہے۔ لیکن میں زندگی دینے کے لئے آیا ہوں جو خوبی اور اچھا ئی سے بھر پور ہے۔

11 “میں ایک اچھا چرواہا ہوں اور اچھا چرواہا اپنی بھیڑوں کے لئے اپنی زندگی دیتا ہے۔ 12 لیکن مزدور جسے بھیڑوں کی نگہداشت کے لئے اجرت دی جاتی ہے وہ چرواہے سے مختلف ہے۔ اجرت پا نے والا مزدور بھیڑوں کا مالک نہیں ہو تا لہذا جب مزدور یہ دیکھتا ہے کہ بھیڑ یا آرہا ہے تو وہ بھاگ جا تا ہے اور بھیڑوں کو چھو ڑ دیتا ہے تب بھیڑیا حملہ کرتا ہے اور انہیں منتشر کر دیتا ہے۔ 13 وہ مزدور اس لئے بھا گ جاتا ہے کہ وہ صرف ملازم ہے اور اسے بھیڑوں کی فکر نہیں ہو تی۔

14-15 “میں اچھا چرواہاہوں میں بھیڑوں کو اسی طرح جانتا ہوں جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور میں باپ کو اور اسی طرح بھیڑیں بھی مجھے جانتی ہیں میں ان بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہوں۔ 16 میری اور بھیڑیں بھی ہیں جو اس بھیڑ خانہ میں نہیں ہیں مجھے انکو بھی لا نا ہے۔وہ میری آواز سنیں گی آئندہ ایک جھنڈ ہوگا اور انکا ایک چرواہا ہو گا۔ 17 باپ مجھ سے محبت کرتا ہے اس لئے کہ میں اپنی جان دیتا ہوں تا کہ اسکو پھر واپس لے سکوں۔ 18 کوئی بھی مجھ سے میری جان چھین نہیں سکتا۔بلکہ میں ہی اسے دیتا ہوں اور ایسا کر نے کا مجھے حق ہے اور اختیار ہے کہ واپس لوں یہ حکم مجھے میرے باپ نے دیا ہے۔”

19 ان باتوں پر یہودی آپس میں ایک دوسرے سے متفق نہیں تھے۔ 20 ان میں سے بہت سے یہودیوں نے کہا ، “اس میں بد روح آگئی ہے اور اسے دیوانہ بنا دی ہے کیوں اسے سنیں۔”

21 لیکن کچھ یہودیوں نے کہا ، “ایک آدمی بد روح کے زیر اثر ہو ایسی باتیں نہیں کر سکتا۔کیا ایک بد روح اندھے آدمی کو بینائی دے سکتی ہے؟ کبھی نہیں۔”

یہودی کا یسوع کے خلاف ہو نا

22 جاڑے کا موسم تھا اور یروشلم میں نذر کی تقریب تھی۔ 23 یسوع ہیکل کے سلیمانی برآمدہ میں تھا۔ 24 یہودی یسوع کے اطراف جمع تھے اور انہوں نے کہا ، “کب تک تم ہمیں اپنے بارے میں تنگ کر تے رہو گے ؟اگر تم مسیح ہو تو ہمیں صاف صاف کہدو۔”

25 یسوع نے جواب دیا میں تو تم سے کہہ چکا ہوں لیکن تم یقین نہیں کر تے میں اپنے باپ کے نام پر معجزہ دکھا تا ہوں وہ معجزے خود میرے گواہ ہیں کہ میں کو ن ہوں۔ 26 لیکن تم لوگ مجھ پر یقین نہیں کر تے کیوں کہ تم میری بھیڑ میں سے نہیں ہو۔ 27 میری بھیڑیں میری آواز پہچانتی ہیں میں انہیں جانتا ہو ں اور وہ میرے ساتھ چلتی ہیں۔ 28 میں اپنی بھیڑوں کو ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ کبھی بھی ہلاک نہیں ہونگی اور کو ئی بھی انہیں مجھ سے نہیں چھین سکتا۔ 29 میرا باپ جس نے مجھے بھیڑیں دی ہیں وہ سب سے بڑا ہے۔ کو ئی بھی آدمی میرے باپ کے ہاتھوں سے انہیں نہیں چھین سکتا۔ 30 میرا باپ اور ہم ایک ہی ہیں۔”

31 یہودیوں نے یسوع کو مار ڈالنے کے لئے پھر پتھّر اٹھا ئے۔ 32 لیکن یسوع نے ان سے دو بارہ کہا ، “میں نے اپنے باپ کی طرف سے بہت اچھے کام کئے اور وہ تم سب دیکھ چکے ہو اور تم ان اچھے کاموں کی وجہ سے مجھے مارڈالنا چاھتے ہو؟”

33 یہودیوں نے کہا ، “ہم تمہیں سنگسار کرنا چاہتے ہیں اسلئے نہیں کہ تم نے اچھے کام کئے بلکہ اس لئے کہ تم خدا سے گستاخی کرتے ہو۔ تم تو صرف ایک آدمی ہو لیکن اپنے آپکو خدا کہتے ہو۔

34 یسوع نے جواب دیا، “یہ تمہاری شریعت میں لکھا ہے، “میں نے کہا کہ تم دیوتا ہو۔” [a] 35 جب کہ اس نے انہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا اور صحیفوں کا باطل ہو نا ممکن نہیں۔ 36 تم مجھ سے یہ کیوں کہتے ہو کہ میں خدا کے خلاف کہہ رہا ہوں۔ کیوں کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں میں ہی ایک ایسا ہوں خدا نے مجھے چن کر دنیا میں بھیجا۔ 37 اگر میں اپنے باپ کے مقاصد کو پو را نہیں کرتا تو مجھ پر ایمان مت لاؤ۔ 38 لیکن اگر میں وہی کروں جسے باپ نے کیا ہے تب تو تمہیں اس پر یقین کرنا چاہئے جو میں کرتا ہوں۔ تم شاید مجھ میں یقین نہیں رکھتے ، لیکن جو چیزیں میں کرتا ہوں اس پر تمہیں یقین کر نا چاہئے۔ تب تم جانو گے اور سمجھو گے کہ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں ہوں۔”

39 یہودیوں نے دوبارہ یسوع کو گرفتار کر نے کی کوشش کی لیکن یسوع انکے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔

40 یسوع پھر دریائے یردن کے پار چلے گئے جہاں یوحنا بپتسمہ دیا کرتا تھا یسوع نے وہاں قیام کیا۔ 41 کئی لوگ یسوع کے پاس آئے اور کہا ، “یوحنا نے کبھی کو ئی معجزہ نہیں دکھایا اور جو کچھ یوحنا نے اس آدمی کے متعلق کہا وہ سچ ہے۔” 42 اور وہاں موجود لوگوں میں کئی لوگ یسوع پر ایمان لائے۔

Footnotes

  1. یوحنا 10:34 اِقتِباس زبور ۶:۸۲