Add parallel Print Page Options

اپنے خاص خادم کو خدا کا بلا وا

49 اے جزیروں کے باشندو! میری بات سنو۔
    اے زمین کے دور کی قومو! تم سبھی میری بات سنو۔
میری پیدائش سے قبل ہی خدا وند نے مجھے اپنی خدمت کے لئے بلا یا،
    جب میں اپنی ماں کے رحم میں ہی تھا خدا وند نے میرا نام رکھ دیا تھا۔
اس نے میرے منھ کو
تیز تلوار کی مانند بنا یا
    اور مجھ کو اپنے ہاتھ کے سایہ تلے چھپا یا۔
اس نے مجھے تیز تیر کی مانند استعمال کیا
    لیکن اس نے مجھے اپنے ترکش میں چھپا کر بھی رکھا۔
خدا وند نے مجھے بتا یا ہے، “اے اسرائیل! تو میرا خادم ہے۔
    میں تجھ میں اپنا جلال ظا ہر کروں گا۔
میں نے کہا ، “میں تو بس بیکار ہی کڑی محنت کرتا رہا۔
    میں تھک کر چور ہوا۔
میں کوئی کام نہیں کر سکا۔
اس لئے خدا وند فیصلہ کرے کہ میں کس کا مستحق ہوں۔
    خدا کو میرے اجر کا فیصلہ کرنا چاہئے۔
خدا وند مجھے رِحم میں بنا یا
    تا کہ اس کا خادم ہو کر
    یعقوب کو اس کے پاس واپس لاؤں اور اسرائیل کو اس کے پاس پھر سے جمع کروں۔
میں خدا وند کی نظر میں جلیل القدر ہوں
    اور وہ میری توانائی ہے۔”
اس نے کہا ، “تو میرے لئے میرا بہت ہی اہم خادم ہے۔
    لیکن تیرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ تو اسرائیل کے باقی ماندہ لوگوں
    اور یعقوب کے گھرانے کے گروہ کو میرے پاس واپس لوٹا کر لے آ۔
میں تجھ کو سب قو موں کے لئے ایک نور بناؤں گا۔
    تا کہ میری نجات زمین کے آخری سرے تک پہنچے۔”
اسرائیل کا قدوس، اسرائیل کا نجات دہندہ خدا وند فرماتا ہے،
    “میرا خادم فرماں بردار ہے،
    وہ امراء کی خدمت کرتا ہے
    لیکن لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں۔
مگر بادشاہ اسے دیکھیں گے اور اس کے احترام میں کھڑے ہوں گے۔
    بڑے حاکم بھی اس کے آگے سجدہ کریں گے۔”

ایسا ہوگا کیوں کہ اسرائیل کا قدوس ایسا چاہتا ہے۔ اور خدا وند کے بھروسے رہا جا سکتا ہے۔ وہ وہی ہے جس نے تجھ کو بر گزیدہ کیا۔”

نجات کا دن

خدا وند فرماتا ہے،
“جب تجھے بچانے کا وقت آئیگا
    میں تمہاری دعاؤں کا جواب دونگا۔
میں تم کو سہارا دونگا۔ نجات کے دنوں میں میں تمہاری حفاظت کروں گا۔
    تم اس کا ثبوت ہوگے کہ لوگوں کے ساتھ میرا معاہدہ ہے۔
    اب ملک اجڑ چکا ہے ، لیکن تم یہ زمین اور تباہ کی گئی جائیداد کو اسکے مالکوں کو لوٹا ؤ گے۔
تم قیدیوں سے کہو گے،
    “تم اپنے قید خانے سے باہر نکل آ ؤ۔
تم ان لوگوں سے جو اندھیرے میں ہیں کہو گے،
    ’تاریکی سے باہر آجاؤ۔‘
وہ چلتے ہوئے راہ میں چریں گے۔
    اور سب ننگے ٹیلے انکی چراگاہیں ہوں گے۔
10 لوگ نہ بھو کے رہیں گے اور نہ ہی لوگ پیاسے رہیں گے
    اور نہ تو دھوپ سے چوٹ کھائیں گے اور نہ ہی ریگستانی ہوا سے،
کیوں کہ خدا جو ان لوگوں کو تسلی دیتا ہے
    پانی کے جھر نوں تک انکی رہنمائی کرے گا۔
11 “میں اپنے لوگوں کے لئے راہ ہموار کروں گا۔
پہاڑ ہموار ہو جائیں گے اور دبی راہیں اوپر اٹھ آئیں گی۔
12 “دیکھو! دور دور ملکوں سے لوگ یہاں آرہے ہیں۔
    شمال سے لوگ آرہے ہیں۔ مغرب سے لوگ آرہے ہیں۔
    لوگ مصر میں سِنیم سے آرہے ہیں۔”

13 اے آسمانو گاؤ! اے زمین تم مسرور ہو جاؤ!
    اے پہا ڑو ، خوشی کا نغمہ پر دازی کرو!
کیوں کہ خدا وند نےاپنے لوگوں کو تسلی بخشی ہے
    اور ان پر جو مصیبتوں میں مبتلاء ہیں رحم فرمائے گا۔

صیّون چھو ڑی ہوئی خاتون

14 لیکن صیون کہتی ہے ، “خدا وند نے مجھے چھو ڑ دیا ہے۔”
    میرا مالک مجھ کو بھول گیا۔
15 لیکن خدا وند فرماتا ہے،
“کیا کوئی ماں اپنے ہی بچے کو جس کو اس نے پالا ہے بھول سکتی ہے؟ نہیں!
    کیا کوئی عورت اس بچے کو جو اس کے ہی رحم سے جنم لیا ہے، بھول سکتی ہے ؟ نہیں!
لیکن ہاں وہ شاید بھول جائے
    لیکن میں ( خداوند ) تجھ کو نہیں بھولوں گا۔
16 ذرا دیکھو ! میں نے اپنی ہتھیلی پر تیرا نام کھو دلیا ہے۔
    میں ہمیشہ تیرے بارے میں سوچا کرتا ہوں۔
17 تیری اولاد تیرے پاس لوٹ آئے گی۔
    جن لوگوں نے تجھ کوشکست خوردہ کیا تھا، اور تجھے تباہ کیا تھا وہی لوگ تجھ کو اکیلا چھو ڑ جائیں گے۔”

بنی اسرائیلیوں کی واپسی

18 اوپر نگاہ کرو ، اور چاروں جانب دیکھو۔
    تمہاری اولاد آپس میں اکٹھی ہو کر تمہارے پاس آرہی ہے۔
خدا وند کہتا ہے،
“مجھے اپنی حیات کی قسم کہ
    تم یقیناً ان سب کو زیور کی مانند پہن لوگی
    اور تم اس سے دلہن کی طرح آراستہ ہوگی۔

19 آج تو برباد ہے آج تو اجڑی ہوئی ہے۔
    تیری زمین بیکار ہے،
لیکن کچھ ہی دنوں بعد تیری زمین پر بسنے والے لوگ گنجائش سے زیادہ ہونگے۔
    اور وہ لوگ جنہوں نے تجھے اجاڑا تھا بہت دور چلے جائیں گے۔
20 جو بچے تو نے کھو دیئے ان کے لئے تجھے بہت دکھ ہوگا لیکن وہی بچے تجھ سے کہیں گے،
    “یہ جگہ رہنے کے لئے بہت چھو ٹی ہے،
    ہم کو بسنے کے لئے اور زیادہ جگہ دے۔،
21 پھر تو خود اپنے آپ سے کہے گی،
    ’کون میرے لئے ان سب کو پیدا کیا ؟
میں تو اپنے بچوں کو کھو چکی تھی،
    میں اور بچہ بھی پیدا نہیں کر سکتی تھی۔
    میں اکیلی تھی میں ہاری ہوئی تھی ،
    میں اپنے لوگوں سے دور تھی، سو کس نے ان کو پالا ؟
دیکھ میں اکیلی رہ گئی تھی
    پھر یہ سب بچے کہاں سے آئے ؟”

22 خدا وند خدا یوں فرماتا ہے ،
“دیکھ میں قوموں پر اشارہ کے طور پر ہاتھ اٹھاؤنگا
    اور لوگوں کے دیکھنے کے لئے اپنا جھنڈا کھڑا کروں گا۔
اور وہ تیرے بیٹوں کو اپنی گود میں لے آئیں گے
    اور تیرے بیٹوں کو اپنے کندھو ں پر بٹھا کر پہنچا ئیں گے۔
23 اور بادشا ہ تیرے بچوں کو تعلیم دیں گے
    اور ان کی شہزادیاں ان کی دایہ ہو ں گی۔
    

وہ تیرے سامنے منہ کے بل زمین پر گریں گے


    اور تیرے پا ؤں کی خاک چا ٹیں گے۔
اور تب تو جانے گی کہ میں ہی خداوند ہوں
    اور وہ مجھ پر بھروسہ کریں گے وہ مایوس نہیں ہو ں گے۔

24 جب کو ئی زبردست سپا ہی جنگ میں کامران ہو تا ہے
    تو کیا کو ئی اس کی حاصل کی ہو ئی مال غنیمت کی چیزوں کو اس سے لینے کی جراٴت کر سکتا ہے؟
کیا ایک اچھے سپا ہی کا
    قیدي بھا گ سکتا ہے ؟
25 لیکن خداوند فرماتا ہے،
“اس زبردست سپا ہی سے قیدیوں کو چھڑا لیا جا ئے گا
    اور طاقتور سپا ہی کی مال غنیمت چھین لی جائیں گی۔
کیوں کہ میں تمہا رے بدلے میں جنگ لڑوں گا
    اور تمہا رے بچوں کو آزاد کروں گا۔
26 “اور میں تم پر ظلم کر نے وا لوں کو
    ان ہی کا گوشت کھلا ؤں گا ،
    اور وہ میٹھی مئے کی مانند اپنا ہی لہو پی کر مدہوش ہو جا ئیں گے۔
تب ہر کو ئی جانے گا کہ میں خداوند تیرا نجات دلانے وا لا،
    تجھے آزاد کرنے وا لا اور یعقوب کا قادر ہوں۔”