Add parallel Print Page Options

میکا یاہ کا بادشا ہ اخی اب کو انتباہ کرنا

18 یہوسفط کے پاس دولت اور عزت تھی۔ اس نے بادشاہ اخی اب کے ساتھ شادی [a] کے ذریعہ ایک معاہدہ کیا۔ چند سال بعد سامریہ شہر میں یہوسفط اخی اب سے ملنے گیا۔ اخی اب نے یہوسفط کے لئے بہت سی بھیڑیں اور گائیوں کی قربانی دی۔ اخی اب نے یہوسفط کو جلعاد کے رامات شہر پر حملہ کرنے کے لئے اکسایا۔ اخی اب نے یہوسفط سے کہا، “کیا تم میرے ساتھ رامات جِلعاد پر حملہ کرو گے ؟ ” اخی اب اسرائیل کا بادشاہ تھا اور یہو سفط یہوداہ کا بادشاہ تھا۔ یہو سفط نے اخی اب کو جواب دیا ، “میں تمہاری طرح ہوں اور میرے لوگ تمہارے لوگوں کی طرح ہیں۔ ہم تمہارے ساتھ جنگ میں شامل ہونگے۔” یہو سفط نے اخی اب سے کہا ، “آؤ ہم پہلے خدا وند سے پیغام حاصل کریں۔”

اس لئے اخی اب نے ۴۰۰ نبیوں کو جمع کیا۔ اخی اب نے ان سے کہا ، “کیا ہمیں رامات جِلعاد کے خلاف جنگ کے لئے جانا چاہئے یا نہیں؟ ”نبیوں نے اخی اب سے کہا ، “جاؤ خدا تمہیں رامات جِلعاد کو شکست دینے دیگا۔” لیکن یہو سفط نے کہا ، “کیا یہاں کو ئی خدا وند کا نبی ہے ؟ ہم لوگ نبیوں میں سے ایک نبی کے ذریعہ خدا وند سے پو چھنا چاہتے ہیں۔” تب بادشاہ اخی اب نے یہو سفط سے کہا ، “یہاں پر ابھی بھی ایک آدمی ہے ہم اس کے ذریعہ سے خدا وند سے پو چھ سکتے ہیں۔ لیکن میں اس آدمی سے نفرت کرتا ہوں کیوں کہ اس نے کبھی میرے بارے میں خدا وند سے کو ئی اچھا پیغام نہیں دیا۔ اس نے میرے بارے میں ہمیشہ ہی برا پیغام دیا۔ اس آدمی کا نام میکا یاہ ہے یہ املہ کا بیٹا ہے۔” لیکن یہو سفط نے کہا ، “اخی اب تمہیں ایسا نہیں کہنا چاہئے۔” تب اسرائیل کا بادشاہ اخی اب نے اپنے عہدیداروں میں سے ایک کو بلایا اور کہا ، “جاؤ اور املہ کے بیٹے میکا یاہ کو یہاں جلدی لاؤ۔” اسرائیل کا بادشاہ اخی اب اور یہوداہ کا بادشاہ یہو سفط اپنے شاہی لباس پہنے ہو ئے تھے۔ وہ اپنے کھلیا نوں میں اپنے تختوں پر سامریہ شہر کے پھا ٹک کے سامنے بیٹھے تھے۔ وہ ۴۰۰ نبی دونوں بادشاہوں کے سامنے پیشین گوئی کر رہے تھے۔ 10 صدقیاہ کنعانہ نامی شخص کا بیٹا تھا۔ صدقیاہ نے لو ہے کی کچھ سینگیں بنائیں۔ صدقیاہ نے کہا ، “وہ یہی ہے جو خدا وند کہتا ہے : ’تم لوگ لوہے کی سینگوں کا استعمال اس وقت تک ارامی لوگوں کے گھو نپنے کے لئے کرو گے جب تک وہ تباہ نہ ہو جائیں۔‘” 11 تمام نبیوں نے یہی بات کہی ، انہوں نے کہا ، “رامات جِلعاد کے شہر کو جاؤ تم لوگ کامیاب ہو گے اور جیت جاؤ گے۔ خدا وند بادشاہ کو ارامی لوگوں کو شکست دینے دیگا۔” 12 جو خبر رساں میکا یاہ کے پاس اسے لینے گئے تھے اس نے اس کو کہا ، “اے میکا یاہ سنو! تمام نبی وہی بات کہتے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ بادشاہ کامیاب ہوگا۔ اس لئے تم وہی کہو جو وہ کہہ رہے ہیں۔ تم بھی ایک خوشخبری دو۔” 13 لیکن میکا یاہ نے جواب دیا ، “خدا وند کی حیات کی قسم میں وہی کہوں گا جو میرا خدا کہتا ہے۔” 14 تب میکا یاہ بادشاہ اخی اب کے پاس آیا۔ بادشاہ نے اس سے کہا ، “میکا یاہ ! کیا ہمیں جنگ کر نے کے لئے جِلعاد کے رامات شہر کو جانا چاہئے یا نہیں ؟ ” میکا یاہ نے کہا ، “جاؤ اور حملہ کرو خدا وند تمہیں ان لوگوں کو شکست دینے دیگا۔” 15 بادشاہ اخی اب نے میکا یاہ سے کہا ، “کئی بار میں نے تم سے وعدہ کرنے کے لئے کہا کہ خدا وند کے نام پر صرف سچ کہو۔” 16 تب میکا یاہ نے کہا ، “میں نے دیکھا تمام بنی اسرائیل پہاڑوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ بغیر چرواہوں کے بھیڑوں کی طرح تھے۔ خدا وند نے کہا ، “ان کا کو ئی قائد نہیں ہے۔ ہر ایک آدمی کو سلامتی سے گھر واپس جانے دو۔” 17 اسرائیل کے بادشاہ اخی اب نے یہو سفط سے کہا ، “میں نے کہا تھا کہ میکا یاہ میرے لئے خدا وند سے اچھا پیغام نہیں پائے گا وہ میرے لئے صرف برا پیغام رکھتا ہے۔” 18 میکا یاہ نے کہا ، “خدا وند کے پیغام کو سنو : میں نے دیکھا خدا وند اپنے تخت پر بیٹھا ہے جنت کی تمام فوجیں اس کے اطراف کھڑی ہیں کچھ اسکے دائیں جانب اور کچھ بائیں جانب۔ 19 خدا وند نے کہا ، ’اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کو کون دھو کہ دیگا ، جس سے وہ جلعاد کے رامات شہر پر حملہ کرے اور وہ وہاں مار دیا جائے ؟‘ خدا وند کے چاروں طرف کھڑے مختلف لوگوں نے مختلف جوابات دیئے۔ 20 تب ایک روح آئی اور وہ خدا وند کے سامنے کھڑی ہو ئی اس روح نے کہا ، ’ میں اخی اب کو دھو کہ دونگی۔‘ خدا وند نے روح سے پو چھا ، “کیسے ؟ ” 21 اس روح نے جواب دیا ، ’میں باہر آؤنگی اور اخی اب کے نبیوں کے منھ میں جھوٹ بولنے والی روح بنوں گی۔‘ اور خدا وند نے کہا ، ’ تمہیں اخی اب کو دھو کہ دینے میں کامیابی ملے گی اس لئے جاؤ اور یہ کرو۔‘ 22 “ اخی اب ! اب غور کر خدا وند نے تمہارے نبیوں کے منھ میں جھو ٹ بولنے والی روح ڈا لی۔ وہ خدا وند ہی ہے جو تمہارے لئے بری خبر دیتا ہے۔” 23 تب صدقیاہ بن کنعنہ میکا یاہ کے پاس گیا اور اس کے منہ پر مارا۔ صدقیاہ نے کہا ، “جب خدا وند کی روح میرے پاس تجھ سے بات کرنے گئی تو کس طرح سے گئی ؟ ” 24 میکایاہ نے جواب دیا ، “صدقیاہ تم اس دن اس کو جان جاؤ گے جب تم ایک اندرونی کمرے میں چھپنے آؤ گے۔” 25 بادشاہ اخی اب نے کہا ، “میکا یاہ کو لے لو اور اسے شہر کے گور نر امون کے اور بادشاہ کے بیٹے یو آس کے پاس بھیج دو۔ 26 امون اور یوآس سے کہو کہ بادشاہ یہ کہتا ہے کہ میکا یاہ کو قید میں رکھو۔ اس کو کھا نے کے لئے سوائے روٹی اور پانی کے کچھ اور نہ دو جب تک میں جنگ سے واپس نہ آؤں۔” 27 میکا یاہ نے جواب دیا ، “اخی اب اگر تم جنگ سے سلامتی سے لوٹ آتے ہو تو سمجھ لینا خدا وند نے میرے ذریعہ نہیں کہا۔ تم سب لوگ میرے الفاظ سنو اور یاد رکھو۔”

اخی اب جِلعاد کے رامات میں مارا جا تا ہے

28 اس لئے اسرائیل کا بادشاہ اخی اب اور یہوداہ کا بادشاہ یہوسفط جلعاد کے رامات شہر پر حملہ کیا۔ 29 اس لئے کہ بادشاہ اخی اب نے یہوسفط سے کہا، “میں جنگ میں جانے سے پہلے اپنی شکل بدل لوں گا لیکن تم اپنے شاہی لباس ہی کو پہنے رہنا۔” اس لئے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب نے اپنی شکل بدل لی اور دونوں بادشاہ جنگ میں گئے۔ 30 ارام کے بادشا ہ نے اپنی رتھوں کے رتھ بانوں کو حکم دیا اور اس نے ان کو کہا، “کو ئی بھی آدمی چا ہے بڑا ہو یا چھو ٹا اس سے جنگ نہ کرو لیکن صرف اسرائیل کے بادشاہ اخی اب سے جنگ کرو۔ ” 31 اب رتھ بانوں نے یہوسفط کو دیکھا انہو ں نے سوچا ، “وہی اسرائیل کا بادشا ہ ا خی اب ہے !” وہ یہوسفط پر حملہ کرنے کے لئے اس کی طرف پلٹے لیکن یہوسفط نے پُکارا اور خداوند نے اس کی مدد کی۔خدا نے رتھوں کے سپہ سالارو ں کو یہوسفط کے سامنے سے موڑدیا۔ 32 جب انہوں نے سمجھا کہ یہوسفط اسرائیل کا بادشا ہ نہیں ہے انہوں نے اس کا پیچھا کر نا چھوڑدیا۔

33 لیکن ایک فو جی کا بغیر کسی ارادے کے اس کی کمان سے تیر نکل گیا اور وہ تیر اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کو لگا۔ یہ تیر اخی اب کے زرہ بکتر کے کھلے حصّے میں لگا۔اخی اب نے رتھ بان سے کہا ، “پلٹ جا ؤ اور مجھے جنگ سے باہر لے چلو میں زخمی ہوں۔” 34 اس دن جنگ بُری طرح لڑی گئی۔اخی اب نے ا رامیوں کا سامنا کرتے ہو ئے شام تک خود کو اپنی رتھ میں سنبھالے رکھا۔تب اخی اب سورج غروب ہو نے پر مر گیا۔

Footnotes

  1. دوم تو اریخ 18:1 شادی … معاہدہ کیا یہو سفط کے بیٹے یہو رام نے اخی اب کی بیٹی اتالیہ سے شادی کی –دیکھو ۲- تواریخ ۶:۲۱

Micaiah Prophesies Against Ahab(A)

18 Now Jehoshaphat had great wealth and honor,(B) and he allied(C) himself with Ahab(D) by marriage. Some years later he went down to see Ahab in Samaria. Ahab slaughtered many sheep and cattle for him and the people with him and urged him to attack Ramoth Gilead. Ahab king of Israel asked Jehoshaphat king of Judah, “Will you go with me against Ramoth Gilead?”

Jehoshaphat replied, “I am as you are, and my people as your people; we will join you in the war.” But Jehoshaphat also said to the king of Israel, “First seek the counsel of the Lord.”

So the king of Israel brought together the prophets—four hundred men—and asked them, “Shall we go to war against Ramoth Gilead, or shall I not?”

“Go,” they answered, “for God will give it into the king’s hand.”

But Jehoshaphat asked, “Is there no longer a prophet of the Lord here whom we can inquire of?”

The king of Israel answered Jehoshaphat, “There is still one prophet through whom we can inquire of the Lord, but I hate him because he never prophesies anything good about me, but always bad. He is Micaiah son of Imlah.”

“The king should not say such a thing,” Jehoshaphat replied.

So the king of Israel called one of his officials and said, “Bring Micaiah son of Imlah at once.”

Dressed in their royal robes, the king of Israel and Jehoshaphat king of Judah were sitting on their thrones at the threshing floor by the entrance of the gate of Samaria, with all the prophets prophesying before them. 10 Now Zedekiah son of Kenaanah had made iron horns, and he declared, “This is what the Lord says: ‘With these you will gore the Arameans until they are destroyed.’”

11 All the other prophets were prophesying the same thing. “Attack Ramoth Gilead(E) and be victorious,” they said, “for the Lord will give it into the king’s hand.”

12 The messenger who had gone to summon Micaiah said to him, “Look, the other prophets without exception are predicting success for the king. Let your word agree with theirs, and speak favorably.”

13 But Micaiah said, “As surely as the Lord lives, I can tell him only what my God says.”(F)

14 When he arrived, the king asked him, “Micaiah, shall we go to war against Ramoth Gilead, or shall I not?”

“Attack and be victorious,” he answered, “for they will be given into your hand.”

15 The king said to him, “How many times must I make you swear to tell me nothing but the truth in the name of the Lord?”

16 Then Micaiah answered, “I saw all Israel(G) scattered on the hills like sheep without a shepherd,(H) and the Lord said, ‘These people have no master. Let each one go home in peace.’”

17 The king of Israel said to Jehoshaphat, “Didn’t I tell you that he never prophesies anything good about me, but only bad?”

18 Micaiah continued, “Therefore hear the word of the Lord: I saw the Lord sitting on his throne(I) with all the multitudes of heaven standing on his right and on his left. 19 And the Lord said, ‘Who will entice Ahab king of Israel into attacking Ramoth Gilead and going to his death there?’

“One suggested this, and another that. 20 Finally, a spirit came forward, stood before the Lord and said, ‘I will entice him.’

“‘By what means?’ the Lord asked.

21 “‘I will go and be a deceiving spirit(J) in the mouths of all his prophets,’ he said.

“‘You will succeed in enticing him,’ said the Lord. ‘Go and do it.’

22 “So now the Lord has put a deceiving spirit in the mouths of these prophets of yours.(K) The Lord has decreed disaster for you.”

23 Then Zedekiah son of Kenaanah went up and slapped(L) Micaiah in the face. “Which way did the spirit from[a] the Lord go when he went from me to speak to you?” he asked.

24 Micaiah replied, “You will find out on the day you go to hide in an inner room.”

25 The king of Israel then ordered, “Take Micaiah and send him back to Amon the ruler of the city and to Joash the king’s son, 26 and say, ‘This is what the king says: Put this fellow in prison(M) and give him nothing but bread and water until I return safely.’”

27 Micaiah declared, “If you ever return safely, the Lord has not spoken through me.” Then he added, “Mark my words, all you people!”

Ahab Killed at Ramoth Gilead(N)

28 So the king of Israel and Jehoshaphat king of Judah went up to Ramoth Gilead. 29 The king of Israel said to Jehoshaphat, “I will enter the battle in disguise, but you wear your royal robes.” So the king of Israel disguised(O) himself and went into battle.

30 Now the king of Aram had ordered his chariot commanders, “Do not fight with anyone, small or great, except the king of Israel.” 31 When the chariot commanders saw Jehoshaphat, they thought, “This is the king of Israel.” So they turned to attack him, but Jehoshaphat cried out,(P) and the Lord helped him. God drew them away from him, 32 for when the chariot commanders saw that he was not the king of Israel, they stopped pursuing him.

33 But someone drew his bow at random and hit the king of Israel between the breastplate and the scale armor. The king told the chariot driver, “Wheel around and get me out of the fighting. I’ve been wounded.” 34 All day long the battle raged, and the king of Israel propped himself up in his chariot facing the Arameans until evening. Then at sunset he died.(Q)

Footnotes

  1. 2 Chronicles 18:23 Or Spirit of