Add parallel Print Page Options

ایّوب کا الیفاز کو جواب دینا

تب ایوب نے جواب دیا :

“ کاش میری مصیبتوں کو تو لا جا تا،
    اور میری ساری مصیبتوں کو ترازُو میں رکھا جا تا !
تم میرے غموں کو سمجھو گے۔
میرے غم سمندروں کے سبھی ریتوں سے زیادہ بھا ری ہو ں گے۔
    اس لئے میرے الفاظ حماقت آمیز لگتے ہیں۔
جیسے خدا قادر مطلق کے تیرو ں نے میرے جسم کو چھید دیا ہے،
    میری جان ا سکے زہر سے متاثر ہوئی۔
    خدا کے بھیانک ہتھیار میرے خِلاف صف بند ہو گئے ہیں۔
تیرے الفاظ کہنے کیلئے آسان ہیں جب کچھ بھی بُرا نہیں ہوا ہے۔
    یہاں تک کہ ایک جنگلی گدھا شکایت نہیں کرتا ہے جب اسے گھاس مِل جا تی ہے،
    اور ایک گا ئے بھی تب تک شکایت نہیں کرتی جب تک اس کے پاس کھانے کیلئے چارہ ہے۔
بغیر نمک کا کھانا بے مزہ ہو تا ہے،
    اور انڈے کی سفیدی بھی بے مزہ ہو تی ہے۔
میں اس کھانے کو چھونا پسند نہیں کرتا ہوں۔
    اس طرح کا کھا نا مجھے بیمار کرتا ہے۔(میرے لئے تمہارے الفاظ ٹھیک اسی طرح کے ہیں۔)

“ کاش ! وہ مجھے مل پاتا جو میں نے مانگا ہے۔
    کاش! خدا مجھے دیدیتا جسکی مجھے خواہش ہے۔
کاش! مجھے خدا کچل دیتا
    وہ اپنے ہاتھ بڑھا تا اور مجھے مار دیتا۔
10 اگر وہ مجھے مار دیتا ، مجھے ایک چیز کے بارے میں تسلی مل گئی ہو تی،
    مجھے خوشی محسوس ہوتی کہ میں نے ان ساری تکلیفوں کے با وجود کبھی بھی قدوس کے احکاموں کی نافر مانی نہیں کی۔

11 “میری قوت ختم ہو چکی ہے، اس لئے مجھے ، اور زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں ہے۔
    مجھ کو پتہ نہیں کہ آخر میں میرے ساتھ کیا ہوگا ؟ اسی لئے میرے پاس صبر کرنے کے لئے کوئی وجہ نہیں ہے۔
12 میں چٹان کی مانند مضبوط اور سخت نہیں ہوں۔
    اور نہ ہی میرا جسم پیتل سے بنا یا گیا ہے۔
13 اب تو مجھ میں اتنی قوت بھی نہیں کہ میں خود کی مدد کروں۔
    کیوں کہ مجھ سے کامیابی چھین لی گئی ہے۔

14 “ ایک شخص کے دوست کو رحم دل ہونا چاہئے جب وہ مصیبت میں ہو۔
    ایک شخص کو اپنے دوست کا وفا دار ہونا چاہئے اگر وہ خدا وند قادر مطلق سے مُڑ بھی جا تا ہے تو بھی۔
15 لیکن میرے بھا ئیو تم وفا دار نہیں رہے ہو۔
    میں تم پر انحصار نہیں کر سکتا ہوں۔ تم ایسے جھر نوں کی مانند ہو جو کبھی بہتا ہے اور کبھی نہیں بہتا ہے۔ تم اس جھرنے کی مانند ہو جو امڈ پڑ تا ہے۔
16 جب وہ برف سے اور پگھلے ہوئے برف سے بند ہو جاتے ہیں۔
17 اور جب موسم گرم اور سو کھا ہو تا ہے
    تب پانی بہنا بند ہو جا تا ہے
    اور جھر نے سوکھ جاتے ہیں۔
18 تاجروں کے قافلے بیا باں میں
    اپنی راہوں سے بھٹک جاتے ہیں ، اور وہ فنا ہو جاتے ہیں۔
19 تیما کے تاجروں کے قافلے پانی کو کھوجتے رہے ،
    اور سبا کے کارواں امید میں دیکھتے رہے۔
20 انہیں یقین تھا کہ انہیں پانی ملے گا،
    مگر انہیں مایوسی ملی تھی۔
21 اب تم ان جھر نوں کی مانند ہو۔
    تم میری مصیبتوں کو دیکھتے ہو اور خوفزدہ ہو۔
22 کیا میں نے تم سے مدد مانگی؟
    کیا میں نے تمہیں تمہاری دولت کو اپنی خاطر استعمال کرنے کو کہا ؟
23 کیا میں نے تم سے کہا تھا کہ دشمنوں سے مجھے بچا ؤ،
    اور مغرور لوگوں سے میری حفاظت کرو۔

24 “میں خاموش رہونگا
    اس لئے مجھے بتاؤ کہ میں نے کیا غلطی کی ہے۔
25 سچّی باتیں طاقتور ہوتی ہیں
    لیکن تمہارا بحث و مباحثہ کیا ثابت کرے گا۔
26 کیا تم میری تنقید کرنے کا منصوبہ بنا تے ہو ؟
    کیا تم اس سے بھی زیادہ ما یوس کن الفاظ بولو گے ؟
27 یہاں تک کہ تم یتیم بچوں کی بھی چیزوں کو قرعہ ڈال کر ہڑپنا چاہتے ہوگے۔
یہاں تک کہ تم اپنے دوست کو بھی بیچ ڈا لو گے۔
28 اس لئے ذرا میرے چہرے کو پر کھو،
    تمہاری موجودگی میں میں ہرگز جھوٹ نہ بولوں گا۔
29 اس لئے اب اپنے ذہن کو تبدیل کرو۔ نا انصافی مت کرو،
    پھر سے ذرا سوچو کہ میں نے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔
30 میں جھوٹ نہیں کہہ رہا ہوں۔
    میں اچھے اور غلط میں فرق کر سکتا ہوں۔”

ایّوب نے کہا،